قصدِ زندگی اب سُوجھنے لگا ہے
نشہ محبت کا ، ٹوٹنے لگا ہے
بازارِ عشق میں بے مول ہو چلا دل
عشق کرنے سے پہلے جو ، سوچنے لگا ہے
شاید چھوڑ جانے کا ارادہ ہے تیرا
بات بات پر جو تو ، روٹھنے لگا ہے
یہ اُس کی سادگی ہے یا تَغافُل ہے
وہ حال مجھ سے میرا پوچھنے لگا ہے
خطا ہے باغباں کی یا موسم کی شرارت یہ
گُل آغوشِ گلستاں میں ہی ، سوکھنے لگا ہے
جواں تھے تو گریباں بھی چھڑانا تھا مشکل
اب نوالہ بھی ہاتھ سے ، چھوٹنے لگا ہے
ڈھلتے ہوئے سورج کاپیام ہے یہ
پرندہ گھر کو جو لَوٹنے لگا ہے
وہ دیکھو تھر میں پھر کوئی بچہ مرا ہے شاید
گِدھ لپک کر پھر سے کچھ ، نوچنے لگا ہے
بڑھتے رہے یونہی تو میری قوم کاکیاہوگا
چین میرا چینی ، لُوٹنے لگا ہے
اس امت کے تابع کبھی شیر بھی رہے ہیں
جس پر آج ہر اک کتا ، بھونکنے لگا ہے
اخلاق زوال کے سورج کو زوال ہے اب
کہ مسلماں پاک و ہند کا ، سوچنے لگا ہے