قصے کہانیوں میں الجھ گیا ہوں
کن پریشانیوں میں الجھ گیا ہوں
کون ہے جو میرے راستے کی دیوار ہے
کس کی کارستانیوں میں الجھ گیا ہوں
متزلزل ہوا جاتا ہے مزاج اپنا
جیسے پانیوں میں الجھ گیا ہوں
مسلسل درپیش ہے سفر زندگانی کو
پھر کیوں رشتے داریوں میں الجھ گیا ہوں
شب خون مارتی ہیں سوچیں راہی
کیسی ذمہ داریوں میں الجھ گیا ہوں