میری بربادیوں کا جشن مناتے ہیں تو خوش ہوتے ہیں زمانے والے
اشک آنکھوں میں میری آتے ہیں تو خوش ہوتے ہیں زمانے والے
یہ ریت تو چلی آتی ہے صدیوں سے میری جاں
گھر دوسروں کا جلاتے ہیں تو خوش ہوتے ہیں زمانے والے
زخمی کر کے خنجر سے میرے جسم کا کونہ کونہ
رستے زخموں پہ نمک لگاتے ہیں تو خوش ہوتے ہیں زمانے والے
خود تو کرتے ہیں بسر راتیں پھولوں کی سیج پر
ہمیں کانٹوں پہ سلاتے ہیں تو خوش ہوتے ہیں زمانے والے
دے کے صدمہ جدائی کا سجا کر محفل احباب یہاں
چین دو دلوں کا چراتے ہیں تو خوش ہوتے ہیں زمانے والے
مجھے رلا کے ستا کے امتیاز چھین کر ہوش میرے
قطرہ قطرہ زہر پلاتے ہیں تو خوش ہوتے ہیں زمانے والے