جتنا کر سکتا تھا دامن اشکوں سے تر کر لیا
خود پہ جبر کرلیا ہاں میں نے صبر کر لیا
قطرہ قطرہ زہر پی کے اب مجھے جینا نہیں
میں نے اب اک بار سارا زہر تن میں بھر لیا
روز جینا روز مرنا اب میرے بس میں نہیں
اب تو یا جینا ہے یا مرنا ارادہ کر لیا
خواب ٹوٹے تو بکھریں گے سمٹ نہ پائیں گے
ایسے خوابوں سے تو اب ہم نے کنارہ کر لیا
دل کے مندر توڑے اور مسجدوں میں بیٹھ
لوگ یہ سمجھے گناہوں کا کفارہ کر لیا
قطرے کو سمندر سمجھتا ہے ناداں انسان
ایک منزل کیا ملی سمجھا جہاں سر کر لیا