نیرنگئی دوراں
رات دن آہ و فغاں میرے لئے
رنج و غم ہیں نا گہاں میرے لئے
پھر گئیں آنکھیں جہاں کی اس طرح
ہر قدم ہیں امتحاں میرے لئے
اقدار سوزیاں
انسانیت کا نکلا جنازا گلی گلی
حیوانیت کی عام ہوئی لہر آجکل
ہر سمت بم دھماکوں کا جب سلسلہ بڑھا
ماتم کدہ بنا ہے بھرا شہر آجکل
زندگی کی راہ
درد و غم، صدمے، الم، بے چینیاں ، مجبوریاں
زندگی کی راہ میں ہیں آفتیں، مجبوریاں
سر اٹھا کر کس طرح کوئی جئے گا دہر میں ؟
آدمی کے واسطے ہیں مشکلیں ، مجبوریاں
گرفت گردش ایام
ہیں تہہ در تہہ چھپے صدمے یہاں پر
کسے اندازہ ہو گہرائیوں کا
غریبوں کا ہوا ہے جینا دشوار
بڑھا ہے سلسلہ مہنگائیوں کا
مسئلہ
سسکتے ، بلکتے، ہوؤں کے لئے
عبث ہے کھری، کھوٹی کا مسئلہ
غریبوں کو سب مسئلوں سے بڑا
ہے دو وقت کی روٹی کا مسئلہ
قناعت
ہم لوگ ذرا رنج میں ڈوبا نہیں کرتے
امید کا دامن کبھی چھوڑا نہیں کرتے
کرتے ہیں بسر اپنی قناعت میں ہمیشہ
شاہوں کی طرف حرص سے دیکھا نہیں کرتے