قوم کی تقدیر کے ڈوب گئے ستارے
غروب آفتاب ہےاور دیا کوئی نہیں
ہر جاہ بکھرے ہیں کفر کے اندھیرے
سنائے نویدِ سحر وہ مہرباں کوئی نہیں
وہ وقت کوئی اور تھا برستی تھی رم جھم
خشک سالی ہے اب باراں کوئی نہیں
بن جاتی آہ مظلوم کی ، سزا مجرم کی
بدل ڈالے جو تقدیر وہ دعا کوئی نہیں
اڑ رہیں مسلسل خس و خاشا ک شہر کے
آوارگی کے عالم میں رہنما کوئی نہیں
لکھ رہے ہیں اکابر نوشتہِ تقدیر اب
ابلیس کی شورٰی میں خدا کوئی نہیں