قیامت ہے بہار اب کے برس اپنے گلستاں کی
گلوں میں کیفیت پیدا ہوئی خارِ بیاباں کی
جو باہم عندلیبانِ چمن دست و گریباں ہیں
تو ایسی کشمکش میں فکر ہے کس کو گلستاں کی
رہا اب اور کیا باقی زوالِ آدمیّت میں
کہ طینت ہوگئی ہے، مائلِ تخریب انساں کی
اگر ہے جذبئہ صادق تو کیا ڈر موجِ طوفاں سے
لگا دے گی کنارے خود ہی کشتی موجِ طوفاں کی
بہاروں میں کرے کوئی ہزار ان کی نگہ بانی
کہاں جاتی ہے دیوانوں سے خو چاکِ گریباں کی
مجھے جب درد ہی میں زندگی کا لطف ملتا ہے
تو پھر اے چارہ گر مجھ کو ضرورت کیا ہے درماں کی
بڑی مشکل سے اُف کم بخت دل کو چین آیا تھا
معاذ اللہ پھر یاد آگئی کس فتنہ ساماں کی
اندھیری رات میں ہے جگنوؤں کی روشنی کافی
غریبوں کی لحد پر کیا ضرورت ہے چراغاں کی
اسے اہلِ نظر کہتے ہیں توہینِ جنوں اخترؔ
کسے شوریدگی میں فکر ہوتی ہے گریباں کی