Add Poetry

Poetries by Kaiser Mukhtar

اقبال کی بانی اور وقت کا پہیہ شکوہ ء ا ھل خِرد , درد مندانِ جہاں
مِٹ گئے جن کے نقوش وہ اھل زباں
قصّہء لالہ و گل میں مگن راقم داستاں
وہ مردانِ جری آج بھی ہیں شکوہ کناں
کیا ہوئی حسرت و فریاد کی کہانی یا رب
قصہء ارض و سما پہ اقبال کی بانی یارب
تیرے بندے کی وہ اُمّت اور اس کی اُٹھان
مردِ حُر خالد و عون اور وہ اھلِ ایمان
بات چل نکلی تو پھر سبھی نے دیکھا
حدّتِ ایمان سے پگھلے وہ قصریٰ کے محل
سُر چِھڑ ے اور مغنّی سبھی ساتھ ھوئے
غیرتِ ایمانی نے لکھی وہ مدھوش غزل
جس کے قِصّے پھر زبانِ زدِ عا م ھوئے
مردِ مومن پھر خدا سے ھم کلام ھوئے
گُل و لالہ و سرو سے وہ گُلستاں آباد ھوئے
جنکی خوشبو سے چہارعالم جہاں شاد ھوئے
پھر نہ جانے کہاں سے وہ جَھونکا آیا
اپنے ہمراہ ابدی خزاں کا اک تحفہ لایا
حکیمِ لا اُمّت نے پہچانی تھی جس کی نبض
جسم مُردہ ھُوا اور روح ہوئی اسکی قبض
ایک چُنگل سے جونِکلے تو پھنسے اَورسے اَور
پھر زمانے نے کئے و ہ ظلم ستم و جور
آج تک کا نپتی ھے روح مسلمانوں کی
چُھپ گئی ھے حرارت کہیں ایمانوں کی
و قت کے ساتھ ملا کر نہ چلا جو پہیّہ
خوابِ خرگوش میں کچھ بھی نہ ہوُا اسکو مہیا
قیصر مختار
ناروا اطوار لوگ سیانے ہوگئے ہیں
زندگی کی تپتی دھوپ میں
جل کے کندن ہوگئے ہیں
وقت کی رفتار ماپتے ہیں
اڑان بھرتے ہیں.... پنچھیوں کی طرح
اور منزل منزل رواں دواں ہیں
مگر جذبات کی تند رو میں
بہہ جاتے ہیں....معصوم بچوں کی طرح
اور عشق کی تند آگ میں
جھلس جانے کو بھی تیار بیٹھے ہیں
مقدس پاک رشتوں کی
اب بھی کی جاتی ہے قدردانی
شمع جلے تو اب بھی پروانہ
چلا آتا ہے جاں ہتھیلی پہ لئے
ماں کو ہے بچے سے اب بھی اسی قدر پیار
اور باپ کی شفقت کی بھی ہے وہی بھرمار
مگر معیار بدل گئے ہیں
قول و قرار بدل گئے ہیں
قدر نوع انسانی میں ہے گراوٹ بے تحاشہ
لگا ہے انساں کے ہاتھوں انساں کی تذلیل کا تماشہ
دولت میں تلتی ہے" قدر " نوع انساں کی
بازار میں بکتے ہیں ہنر اور ہنرمند
تہذیب کے معیار الگ ہوگئے ہیں
دین و دنیا کے اطوار الگ ہوگئے ہیں
کہیں مٹی میں ملتے ہیں
روز اجل میں انساں
اور کہیں پہ جانور بھی نہیں سہ پاتے
سلوک نا روا
کہیں پہ آدمی روٹی کو ترستا ہے
اور کہیں پہ کتا بھی مکھن کھا کے سوتا ہے
خدا جانے" یہ " معیار کیوں پنپتے ہیں
سہ پاتی ہے قدرت کیونکر یہ ناروا اطوار
Kaiser Mukhtar
Famous Poets
View More Poets