ٹو ٹتا ہے کبھی بکھرتا ہے
آدمی حد سے جب گزرتا ہے
یادیں آواز جب لگاتی ہیں
در کی دستک پہ دل یہ ڈرتا ہے
دیکھ کر تم کو سوچتی ہوں
یاد اب کون کس کو کرتا ہے
روز یادوں کا ایک لشکر سا
دیکھتے ہیں کہاں ٹھہرتا ہے
قیمتی ہے ہر ایک پل وہ شاہین
تیری یادوں سے جو گزرتا ہے