دیکھ اے یونان تیرے لالچ میں ہم پڑ گئے
اپنے وطن سے تیرے یورو ہمیں دورکر گئے
کتنے وعدے کتنی وفائیں چکنا چھوڑ ہو گئیں
بلبلیں چمن میں رہ کر اپنوں سے دور ہو گئیں
تیری راہ میں ماؤں نے اپنے لختے جگر گنوا دیئے
جو اپنے وطن میں تھے روشن وہ چراغ بجھا دئیے
اپنی خواہشوں میں پڑ کر رازق کو ہم بھول گئے
جو پتھروں میں پہنچائے رزق اسے ہم بھول گئے
مستقبل بناتے بناتے ہم اپنے ماضی سے بھی دور ہو گئے
یونان میں رہ کر اپنوں کو ملنے سے محروم ہو گئے
کئیں محبوبیں اپنے شیدائوں کا انتظار کرتیں رہ گئیں
شادیاں ہو گئیں ان کی حسرتیں دلوں میں رہ گئیں
سوچا نا تھا بدر ہمارے ارماں آنسوؤں میں بہہ جائیں گئے
کیا معلوم تھا یونان پہنچ کر اپنوں سے بچھڑ جائیں گئے