کسی بھی اپنے کی کوئی صدا نہ آئے گی
ہمیں تو راس یہاں کی فضا نہ آئے گی
کہیں پہ درز ہے اور نہ ہی در کھلا کوئی
شدید حبس میں تازہ ہوا نہ آئے گی
خذانہ لوٹ کے بنتے ہیں ملک کے خادم
یہ حکمران ہیں ان کو حیا نہ آئے گی
جہاں برسنا ہے اس نے وہیں پہ برسے گی
لبوں کی پیاس بجھانے گھٹا نہ آئے گی
چمن اداس ہے پھولوں پہ سوگواری ہے
یوں لگ رہا ہے کہ باد صبا نہ آ ئے گی
اسی سے آس لگائے ہیں آج تک زاہد
ستم شعار ہے جس کو وفا نہ آئے گی