الجھی سوچوں
بے نام لفظوں کو
جب بھی کا غذ پہ لکھنا چاہا
قلم نے تب ساتھ چھوڑ ڈالا
خرد نے ہر خواب توڑ ڈالا
ہمیشہ دل میں گماں یہ آیا
ان الجھی سوچوں کو نام کیا دوں؟
بے معنی لفظوں سے پیغام کیا دوں؟
وہ لفظ جن میں نہیں اثر کہ
جھنجھوڑ ڈالیں میرے ہی نفس کو
وہ لفظ جو ہیں ہر احساس سے عاری
وہ لفظ کیوں کر اک انساں بدل دیں؟
ذہن میں الجھے گماں بدل دیں
دلوں کا بد ظن سماں بدل دیں
ہوں لفظ ایسے کہ جن کی تاثیر سے
ہر عقل کے صحرا میں گل کھلیں
ہر گلشن دل میں بہار آئے
وہ لفظ جب بھی زباں سے نکلیں
تو گلستاں میں نکھار آئے
جو ہر اندھیرا اجال جائے
اور میری نادامی کے بوجھ کو یوں اتار جائے
کہ جیسے بارش بہت سی رحمت نچھاور کر کے
بےجاں شگوفے سہار جائے