کبھی کبھی
بہت خوبصورتی سے
کاغذ پر لکھے "لفظ بولنے لگتے ہیں"
چھومنے لگتے ہیں
اور پھر تنہائی، تنہائی نہیں رہتی
محفل کہ گمان میں بدل جاتی ہے
ہم زیرِ لب مسکراتے ہیں
جیسے کوئی دیکھ رہا ہو
جیسے کسی سے شرماتے ہیں
پھر جھینپ جاتے ہیں
خود سے ہی نظریں چراتے ہیں
لفظ بھی ڈر کر سہم جاتے ہیں
اور
ہم پھر سے تنہائی میں لوٹ آتے ہیں