بے کلی کے موسم میں
جب کسی بھی برگد سے
راز کہہ نہیں پاتی
ان ضعیف لمحوں میں
سوزِ جاں سے گھبرا کر
الٹی سیدھی سوچوں کو
ٹوٹے پھوٹے لفظوں سے
آڑھی ترچی سطروں میں
آگے پیچھے کر کر کے
خود سے باتیں کرتی ہوں
آگہی کی بھٹی میں
ہوش کی سلاخوں پر
بے بسی کی شدت کو
الجھنوں کے ایندھن پر
وجد میں لٹا کر میں
زہر یاس چھڑکا کر
درد پھونک دیتی ہوں
پھر بہت تسلی سے
دیدہ و دل وا کر کے
حوصلے کی کھڑکی سے
اس عجیب منظر کو
دیکھ کر تڑپتی ہوں
آگہی کے شعلوں میں
درد رقص کرتا ہے
جلتے بجھتے انگارے
دل کے نہاں خانوں سے
یادوں کے خزانوں کو
کھینچ کر جلاتے ہیں
اور پگھلتا مائع جب
خون میں اترتا ہے
تو طنابِ ہستی کا
ہر ستون گر گر کر
شور کرتا جاتا ہے
جسکی سخت دھاڑوں سے
دل کے کان پھٹتے ہیں
مایوسی کا دھواں بھی
حوصلوں کے دھانے پر
دستکیں بجاتا ہے
ایسے کسی لمحے میں
ضبط ٹوٹ جاتا ہے
غم کا سیاہ لاوہ جب
ذات کو تباہ کرکے
آہ سے نباہ کر کے
آنکھ سے نکلتا ہے
تب ہی شعر بنتا ہے
اور لوگ کہتے ہیں
شعر کتنا اچھا ہے
تم بھی اچھی شاعر ہو!
تب میں سوچتی ہوں کہ
ایسا کیا کیا میں نے
جس سے شعر بن پایا
بے سبب اداسی کو
کیوں یہ شعر کہتے ہیں
ورنہ سچ تو یہ ہے کہ
کیمیا گری میں جب
دن کو رام کرتی ہوں
ادب کی تڑپ میں پھر
اپنی شام کرتی ہوں
کرب کو آہنگ دے کر
ہر زخم کو رنگ دے کر
سر سے سر ملاتی ہوں
ہر لفظ کے ماتھے پر
زندگی کے جھومر سے
روشنی جگاتی ہوں
مجھکو تو فقط اپنے
درد سے عقیدت ہے
سوچنے کی عادت ہے
تب ہی شاید ایسا ہے
درد آہ بن کر جب
میری جان لیتے ہیں
لوگ میری حالت کو
شعر مان لیتے ہیں