لگا کے دل کبھی آنسو بھی ہم بہا نہ سکے
لگی جو آگ جگر میں اسے بجھا نہ سکے
کیا ضعیف ترے قصد جستجو نے ہمیں
کہ تا لحد بھی ہم اپنے قدم سے جا نہ سکے
وہ آج بزم میں تیور چڑھائے آئے ہیں
کہ حال دل کوئی اپنا انہیں سنا نہ سکے
ازل سے نام پہ میرے فروغ لکھا تھا
وہ مجھ کو لاکھ مٹایا کئے مٹا نہ سکے
سلا کے قبر میں دیتے ہو تھپکیاں صاحب
کہ مجھ کو شور قیامت بھی اب جگا نہ سکے
ہمارا دولت دنیا نے سر بلند کیا
کہ در پہ دوست کے سجدے کو سر جھکا نہ سکے
ہمارے دل میں لکھی تھی مگر تری الفت
کہ ہم جمال جہاں سے فریب کھا نہ سکے
برا ہو رنگ رخ نا مراد کا عالیؔ
کسی کا راز کلیجہ میں ہم چھپا نہ سکے