لیل و نہار تھے کبھی الفت کی بانہوں میں
اب کے کہاں قیام میرا ان پناہوں میں
اک وقت تھا کے ساتھہ رواں منزلیں بھی تھیں
تجھ سے بچھڑ کے اب تو بھٹکتا ہوں راہوں میں
پائوں میں کیا ہوا جو پڑی ہیں بیڑیاں
اڑتا ہوں میں خیال کی صورت فضائوں میں
میں خودکشی کہوں یا اسے عاشقی کہوں
کیسا بچھا ہے جال تیری ان نگاہوں میں
صفحہ میں باب ِ عشق کا ازبر ہوں کرچکا
کرنی ہے اب کے مشق مجھے تیری بانہوں میں
احسن نہ ساحلوں کی تمنا، نہ شوق ہو
گر ہم سفر ہو میرا وہ الفت کی نائو میں