حُسن جب بے حجاب ہو جائے
جگ کا خانہ خراب ہو جائے
کر کے معصومیت فنا سب کی
رنگِ محفل شتاب ہو جائے
ایک گُلدستہ چند چاکلیٹ پہ
چاہتوں کا حساب ہو جائے
دولتمندی سِکھائے کھیل عجب
شرم ساری حباب ہو جائے
کَم فہم اور سادہ بچوں کو
موقعہ وہ دستیاب ہو جائے
جس کا جی چاہے گُل کا رَس چُوسے
پورا، بھنورے کا خواب ہو جائے
عاشقی نام ہو ہوس کا عبث
دل کا لگنا عذاب ہو جائے
بے غیرت حسین کہلائے
گندگی شیریں آب ہو جائے
دُور ہو جائے کیوں نہ دِل سے خلوص
نفس جب ہم رَکاب ہو جائے
ماں اور باپ کی محبت وہ
کاش پھر بازیاب ہو جائے
پھر سے مشرق بنے وفا کا گھر
پھر طلوع آفتاب ہو جائے
اہلِ مغرب اپنائیں شرم و حیاء
خار، خُوش رنگ گُلاب ہو جائے
مادَر پِدَر آزادی کا سرور
بند ہمیشہ کو باب ہو جائے