صبح دم دانہ ڈالتی تھی پرندوں کے لئے
کچھ دن نہ آئے وہ پھر دسمبر آ گیا
چند گلہریوں نے آباد رکھا گلشن میرا
ویرانہ جانے کہاں سے آ گیا
ا جڑی خزاں میں بھی حسن بلا کا ہے
مانگی بہاروں سے جی گھبرا گیا
خزاںکو بناؤ سنگھار کی ضرورت نہیں
رنگ بناوٹ سچ سارا کھا گیا
اک ذرا سی کوتاہی اور انگلیاں اٹھنے لگی
ہجوم حلقت اندھیر مچا گیا
حسن ازل سے مٹنے کے لئے ہے
احد ہے واحد ہے وہ دل میں سما گی