ہے نویدِ صبح وہ خود زندگی کی شام ہے
ماں کہ اِک سایہ بھی ہے، راحت بھی ہے، آرام ہے
جس کے قدموں میں ہے جنت اس کو ہی کہتے ہیں ماں
وہ خدائے لَم یَزَ ل کا اِک بڑا انعام ہے
بات چھوٹی ہو مگرخود ہی تڑپ جاتی ہے ماں
محسنِ انسانیت، چارہ گرِ آلام ہے
خود تو گیلے میں رہے کہ نیند بچوں کی عزیز
سر ہے پٹی پر کبھی پینتی میں بھی بسرام ہے
سچ ہے کہ تعریفِ ماں آساں نہیں، ممکن نہیں
ماں سے ہے ممتا بنی ، یہ چاہتوں کا نام ہے