ماں ہم جگنوں تھے ہم تتلی تھےہم رنگ برنگے پنچھی تھے
کچھ ماہ و سال کی جنت میں “ماں“ ہم دونوں بھی سانجھی تھے
مین چھوٹا سا اک بچہ تھا تیری اُنگلی تھام کے چلتا تھا
تو دور نظر سے ہوتی تھی مین آنسو آنسو روتا تھا
اک خواب کا روشن بستا تو روز مجھے پہناتی تھی
جب ڈرتا تھا میں راتوں کو تواپنے ساتھ مجھے سلاتی تھی
ماں تو نے کتنے برسوں تک اس پھول کو سانچہ اپنے ھاتھوں سے
جیون کے گہرے بھیدوں کو میں سمجھا تیری باتوں سے
اب مٹی کے اُس پردے میں تو میری آنکھ سے اوجھل ہے
اک دُکھ کے گہرے بادل میں کب سے میرا دل بوجھل ہے
میں تیرے ھاتھ کے تکیے پر اب بھی راتوں کو سوتا ہوں
ماں میں اک چھوٹآ سا بچہ ہوں تیری یاد مین اب تک روتا ہوں