گردشیں لوٹ گئیں میری بلائیں لے کر
گھر سے جب نکلا تھا میں ماں کی دعائیں لے کر
زندگی ڈوب گئی موت کے سناٹے میں
باپ لوٹا نہیں بچے کی دوائیں لے کر
لوگ سڑکوں پہ نکل آئے فسادات کے بعد
اپنے ہی کاندھوں پہ خود اپنی چتائیں لے کر
میری بیماری کا ہو پائے بھلا کیسے علاج
دوست احباب فقط پھول ہی آئیں لے کر
بس اسی خوف سے مچلیں نہ کھلونوں کے لئے
کب تلک بچوں کو بازار نہ جائیں لے کر
ہر سو پھیلی تھی گھٹن شہر سخن میں عارف
جب میں آیا تھا یہاں تازہ ہوائیں لے کر