وہ قابل چار حرفوں کا
ہم دیوان لکھتے رہ گئے
تو میری وفا کی لاج رکھ
میرا عشق تم پر تمام شد
تیرے نال جد یاری نیں رہیی
سانوں وی جند پیاری نیں رہیی
کی لکھاں تے کی پڑھاں
کتاباں اُتے قابض توں ایں
اس شہرِ اُلفت میں یہ بزمِ محبّت ہے
اس بزم کی رونق کو اک تیری ضروت ہے
وہ کہتی ہے مجھے اب کوئی خواہش نہیں رہی
میں کہتا ہوں محترمہ یہ بڑھاپے کی نشانی ہے