بے حسی ہے دنیا میں کون سنے دل کی فریاد
لب پہ خاموشی طاری کر ناداں دل اب چپ ہو جا
موجوں سے کھیلتا رہے امید کا ستارہ
اس کو ملے گا یا نہیں ساحل تیرا کنارہ
لرزتا ہے سراپا کیوں انہی کے پاس آنے سے
جن کے دور جانے سے تمہاری جان جاتی ہے
تنہائیوں کے کارواں چلوں اور کسی دور میں
جستجو میں رواں دواں میری ہر سانس سفر میں
تیری باتوں کے بھنور سے محال بچنا ہے
تیری یادوں کے جال میں میرا وجود مقید
ہم نے بھی سخن گوئی میں طبیعت آزمائی ہے
مگر ممکن نہیں میر و غالب سا اقبال سا ہونا