کس قدر مجبور ہے آج کا انسان
بھوک پیاسا ننگا اور بے مکان
دو وقت کی دال روٹی کے لیئے
ہتھیلی پہ لیئے پھرتا ہے اپنی جان
زور پہ ہے مہنگائی اور بے روز گاری
امیروں کو فکر نہیں غریب ہیں پریشان
دم توڑ دیا ہے انسان کی ہمت کا
کبھی زلزوں کے جٹھکے کبھی تیز آندھی طوفان
زیرآب آ گیئں بستیاں سیلا ب سے
ستم ظریفی دیکھو پھر بھی ہےبجلی کا
مشکلیں بڑھ گیئں روز روز کی ہڑتالوں سے
کیسے کرے کوئی پورے اپنے ارما ن