بعد مدت کے (مرےدل کا وہ) مطلوب، دِکھا
چہرہ پُژ مُردہ دِکھا جسم بھی مسلُوب دِکھا
چھوڑے جاتا ہے تجھے شخص کوئی بِن دیکھے
جان پر کھیل تو راوی میں ابھی ڈوب، دِکھا
میں تری راہ سے خود اپنا ہٹا لوں گا وجود
کچھ ثبوت اس کا (کہ ہے غیر سے منسوب)، دِکھا
میرا سایہ تھا جسے تو نہ ابھی جان سکا
زرد چہرہ لیئے جو راہ میں مجذوب، دِکھا
اس کی آنکھوں میں ابھی مائے کی چربی ہے نئی
بات کرنا بھی مرا اب اسے معیوب دِکھا
درد کچھ ماورا تھا آہ و فغاں میں اس کی
ایک لمحے کو مجھے نالۂِ یعقوبؔ دِکھا
میں نے ہر ایک زمانے پہ نظر دوڑائی
تو مجھے خوب دکھا، خوب دکھا، خوب دکھا
اس کا چہرہ ہے قمر، ساری ادائیں بھی حسیں
میں نہ کہتا تھا الگ سب میں ہے محبوب؟ دِکھا؟
کل تلک تو ہی تو منظورِِ نظر تھا حسرتؔ
کیا ہؤا آج بِلا وجہ جو معتوب دِکھا