مجسم امتحاں اک میری ذات ہو گئی
یارو یہ کیسی عجب بات ہو گئی
ڈھونڈنے نکلا تھا سر شام میں کوئی آشیاں
چلتے چلتے ختم یونہی رات ہو گئی
وہ جس کے ملنے کا گماں نہ تھا کبھی
یوں سر راہ س سے ملاقات ہو گئی
میں جو ضبط کی انتہا پہ تھا
آنکھیں جو بھیگیں تو برسات ہو گئی
اک شکوہ تھا اس کے ہونٹوں پہ لرزاں
اک وہ بات جو آخر شکایت ہو گئی
کیوں اتنے دل گرفتہ اتنے اداس ہو واجد
محبت میں جدائی تو اب اک روایت ہو گئی