مجھ پر تری نظروں کا جو احساں نہیں ہوتا
ہاتھوں سے مرے چاک گریباں نہیں ہوتا
خالی کبھی کانٹوں سے گلستاں نہیں ہوتا
کانٹوں سے کبھی پھول پریشاں نہیں ہوتا
کچھ درد ہو کچھ سوز ہو کچھ نور ہو دل میں
بس خاک کا پتلا ہی تو انساں نہیں ہوتا
اے دوست سمجھتا ہوں تری پرسش غم کو
باتوں سے کبھی درد کا درماں نہیں ہوتا
کیوں اس کو مرے چاک گریباں کی خبر ہو
گیسو بھی کبھی جس کا پریشاں نہیں ہوتا
اے برق جہاں سوز تجھے یہ بھی خبر ہے
عاشق کا نشیمن کبھی ویراں نہیں ہوتا
ہر پھول کو دیکھوں یہ ہے آوارہ نگاہی
ہر نقش میں تو جلوۂ جاناں نہیں ہوتا
ممنون کرم ایک زمانہ ہے ہمیں کیا
ہم پر تو کبھی آپ کا احساں نہیں ہوتا
کھلتا ہے کوئی راز نہاں دیکھ چمن میں
غنچوں کا یوں ہی چاک گریباں نہیں ہوتا
پھولوں سے بہل جاؤں وہ دیوانہ نہیں ہوں
کانٹوں سے الجھنے کو تو داماں نہیں ہوتا
موجوں کو بنا لیتا ہوں میں اپنا سفینہ
طوفاں بھی مرے سامنے طوفاں نہیں ہوتا
میں جن پہ فدا ہوں وہی جلوے ہیں نظر میں
آئینہ تجھے دیکھ کے حیراں نہیں ہوتا
کس منزل دشوار میں ہوں عشق کی عارفؔ
ان سے بھی مرے درد کا درماں نہیں ہوتا