مجھ پہ کیسا خمار ہے اُس کا
چاروں جانب حصار ہے اُس کا
اُڑ رہی ہے جو روشنی ہر سُو
دُھول ہے یا غبار ہے اُس کا
رُخ پہ ہر دم سجائے رکھتی ہُوں
یہ تبسُم قرار ہے اُس کا
کیوں نہ میری غزل حسیں ٹھہرے
میرے حرفوں میں پیار ہے اُس کا
چین دیتا ہے ، لے کے ، بے چینی
بس یہی کاروبار ہے اُس کا
رُوح کا جیسے زندگی پر ہے
دل پہ یُوں اختیار ہے اُس کا
جیسے آنکھوں کو روشنی کا ہو
یُوں مجھے انتظار ہے اُس کا
لوگ کچھ بھی بھلے کہیں عاشی
پر مجھے اعتبار ہے اُس کا