رنگ و صورت کا تقابل نہ اچھالا جائے
شورشِ حسن کوہر حال سنبھالا جائے
روشنی جیسے وفادار ہو باندی اس کی
وہ جہاں جائے تو اک نور کا ہالہ جائے
میں نے مانا کہ خطا آدم و حوا سے ہوئی
ان خطاؤں کو مرے ذمے نہ ڈالا جائے
میں بھلے جو بھی پڑھوں ، جیسا پڑھوں ، جتنا پڑھوں
مجھکو گنتی کی عبادت میں نہ ڈالا جائے
جس کی مہکار معطر کرے باغِ ہستی
پھول ایسا ہو تو پھر پیار سے پالا جائے
تم نہیں جانتے کس کرب سے گزرے مفتی
جب کسی کو بھی دیا دیس نکالا جائے