مجھے ایک شام ادھار دو
کہ بیاں کرنا ہے حال اپنا
کیسے گزارے ہیں شب و روز
کیوں ہوا تباہ حال اپنا
کچھ حال دل تم سنانا، کچھ ہم سنائیں گے
کیسا رہا دورِ ہجر
فراق کی صدیاں
وصل کے لمحے
کیسا رہا ماہ و سال اپنا
ایک شام ادھار دو
کہ ڈھلتا سورج سنگ تمھارے دیکھوں
کاندھے پہ سر رکھ کہ
دردسارے بھلا دوں
اور
ڈھلتے سورج کے حوالے کریں
غم اپنا، کرب اپنا، ملال اپنا
گردشِ وقت میں
کیا رہا حاصل، اور
کیا لاحاصل کی تمنا
کیا گنوا دیا، اور کیا رہا قسمت میں
سب بتانا ہے تمہیں
کیسے بُنا وقت نے جال اپنا
مجھے ایک شام ادھار دو
میرے وجود سے یہ بوجھ اتار دو
میری ذات کو عشق سے سنوار دو
میری بے چینیوں کو قرار دو
جو بکھر گیا مجھے میں،،
اسے اک بار نکھار دو
میرےدل میں جو خزاں اتری ہے
اسے اپنی محبت کی بہار دو
مجھے ایک شام ادھار دو