اس حال میں جیا ہوں کہ جینا محال ہو
جب آبرو کی بات انا کا سوال ہو
حسرت رہی کہ وہ چلا آئے گا ایک دن
جب بھی بس اس کی بات ہو اس کا خیال ہو
اک عہد یہ بھی تھا کہ محبت نبھائیں گے
چاہے عروج ہو یا کبھی پھر زوال ہو
ظالم کا ایک بھی نشاں باقی رہا جہاں
دنیا میں ایک بھی کوئی ایسی مثال ہو
ظاہر ہو جیسا ایسا ہی اندر سے بھی تو ہو
ایسا کوئی جہاں میں بھی حسن و جمال ہو
ملتے ہوئے کہا تھا کہ بس یاد یہ رہے
بچھڑیں بھی اس ادا سے نہ کوئی ملال ہو
جانے کہاں کا مجھ کو یہ رستہ دکھا دیا
اک خار بھی ہٹائے یہ کس کی مجال ہو