سہاروں کی تمنا ہی رہی ہے بے سہاروں کو
سکوں پانے کی کب سے آرزو ہے بے قراروں کو
محبت پا کے ہی تو آدمی انسان بنتا ہے
محبت ہی تو ڈھاتی ہے تکبر کی دیواروں کو
کبھی طوفاں سے ٹکرا کے بھی خود کو آزمائیں ہم
کبھی تو چھوڑ کے دیکھیں سہاروں کو کناروں کو
جہاں سے بے نیازی نے عطا کی ہے انھیں شاہی
جھکے دیکھا ہے درویشوں کے آگے تاجداروں کو
تصوف کے مسائل منکشف ہو جائیں گے تم پر
مری محفل میں آؤ چھوڑ کے سب دنیا داروں کو
خدا کی یاد سے ہوتی ہیں آساں مشکلیں زاہد
سکوں ملتا ہے کتنا پوچھیے تو شب بیداروں کو