یوں رلاکر ہنسانے کی اجازت نہیں ہے
آ ج ان جذبات سے کھیلنے کی اجازت نہیں ہے
مجھ سے دھڑکن کو جدا کرنے کی اجازت لیتے ہو
جاؤ تمھیں اس دل میں رہنے کی اجازت نہیں ہے
عمر تمام گزار ڈالی ہے پیچ راہ میں
کہ اب تو راہ ہموار بھی کرنے کی اجازت نہیں ہے
شکست بھی تھک کر حکم مجھے یوں دیتی ہے
کہ اب کوئی میدان ہارنے کی اجازت نہیں ہے
حقیقت زندگی پر غالب آ گئی ہے ایسے کہ
نیند میں بھی خواب سجانے کی اجازت نہیں ہے
ہم نے بعد طویل مدت کچھ دیے جلاکے رکھے ہیں
تو آ ج ابر کو برسنے کی اجازت نہیں ہے
داستان درد سن کر اب عاجز آ گئے ہیں ماہم
خبردار اک اور قصہ سنانے کی اجازت نہیں ہے