ہُوا جو قتل تو یاد آیا نام محسنؔ کا
ہے معتبر سرِ مقتل مقام محسنؔ کا
کوئ بھی شخص بچانے نہ آیا محسنؔ کو
گلی میں ہوتا رہا قتلِ عام محسنؔ کا
یہ شرفِ قتل تو لے گئ بندوق کی گولی
سناں تو کرتی رہی احترام محسنؔ کا
ترس رہی ہیں وہی سُرخ راہیں مقتل کی
کہ جن پہ ہوتا ہے بس ذِکرِ عام محسنؔ کا
مِلا ہے کیا تُمھیں اے قاتلو قتل کر کے
لبوں پہ آج بھی زِندہ ہے نام محسنؔ کا
یزیدیت کا زمانہ نہ قتل کر دے تُجھے
ابھی بھی وقت ہے دَر تُو نہ تھام محسنؔ کا
ہے میرے پیر نے قاتل کو دی دعا ہر دم
یہی رُلاۓ گا قاتل کو کام محسنؔ کا
کوئ بھی آنچ نہ آۓ گی نام پر اُس کے
رہے گا زِندہ یہ جب تک غلام محسنؔ کا
سُنائ نوکِ سناں پر جو نظم کل میں نے
زمانہ رویا سمجھ کر کلام محسنؔ کا
میں اپنے پیر کو باقرؔ بُھلا نہیں سکتا
کروں گا ذِکر یُونہی صبح و شام محسنؔ کا