مدتوں بعد پھر سے آیا ہے اک پیغام اس کا
لکھا ہے کسی غیر کے نام کے ساتھ نام اس کا
پڑھ رہا ہے نمازیں اب کسی کے نام کی
نام میرے سے کبھی تھا تازہ ایمان اس کا
یادیں، پیار، محبت، اور کچھ چند سی تصویریں
دل تا کمرہ میں ہر سو بکھرہ پڑہ سامان اس کا
چونک سا جاتا میں اب بھی کبھی کئی لمحے
سنوں، پڑھوں جو کبھی کیسے کوئی ہم نام اس کا
کہتا تھا رہ نہ پائے گا بچھڑ کر اک لمحہ بھی کبھی
مڑ کر بھی پھر نہ ملا کبھی کوئی سلام اس کا
آرزو ہی رہی سنوں کبھی اب جی بھر کے پھر کچھ
درد کے لمحوں میں خوشی کا احساس کلام اس کا
ہوتی ہے اذیت جسے اب میرے احوال پوچھنے پر اداسؔ
میرے صرف نام سے ہی مشروط تھا کبھی آرام اسکا