تیری چاہت کا اگرچہ میں طلبگار نہیں
تو اگر چاہنا چاہے تو کچھ انکار نہیں
تو حسیں تو ہے بہت پر یہ غرور بے جا
تجھ کو چاہیں گے بہت پر دل خود دار نہیں
اپنی باتوں سے بنا لیتے ہو دشمن کتنے
دعوئہ عشق کرو پر سر بازار نہیں
قدر دانی مری فطرت ہے نہ اتراؤ بتو
مدح صناعی کی کرتا ہوں پرستار نہیں
بنٹتے خیرات میں ہیں تمغے۔ لقب۔ دستاریں
اہل جو سر ہیں مگر ان پہ ہی دستار نہیں
وقت آخر ہے ۔ عیادت کو ہیں آئے کتنے
منتظر جن کی نظر ہے وہی غم خوار نہیں
جاگ جائے نہ کہیں جینے کا ارمان حسن
کہہ دو لے نام کوئ اس کا سر دار نہیں