مدو جزر کے ایسے نظارے دیکھے
ساحل کی طرح سمندر بھی پیاسے دیکھے
ٹھہر جاؤں یہ تو وہ مقام نہیں
ہر موڑ پہ تو اب تو نئے رستے دیکھے
کس پر یقیں کریں گے یہاں
آدمی کے چہرے بھی بدلتے دیکھے
شاید ہو گئی ہے نمرودگی ختم
کہ لوگ بھی اب آگ سے کھیلتے دیکھے
یہی کسک باقی ہے دل میں سمیعہ
میں انساں نہیں پتھر کے مجسمے دیکھے