مرا وہاں سے گزر نہیں ہوتا
جہاں جہاں وہ اگر نہیں ہوتا
کھری محبت کی رہ گزر پر تو
کہیں بھی دُکھ کا شجر نہیں ہوتا
یہ مانگ کر دیکھئے دُعاؤں میں
اثر ہوا یا اثر نہیں ہوتا
سبب غریبوں کی راحت کا ہو
کوئی بھی اعلان نشر نہیں ہوتا
نہ کام آئے جو دُوسروں کے ، وہ
بشر بھی ہو کر بشر نہیں ہوتا
ترستی رہتی ہیں مہندی کو
بخت میں جن کی بَر نہیں ہوتا