وارث ہم لوگ تیرے شہر میں خوشبو کی طرح ہیں
محسوس بھی نہیں ہوتا نشان بھی نہیں رکھتے
چاند کے ساتھ کئی درد پرانے نکلے
انجلی کتنے غم تھے جو تیرے غم کے بہانے نکلے
جس سمت بھی دیکھوں نظر آتا ہے کہ تم ہو وارث
اے جان جہاں یہ کوئی اور ہے کے تم ہو انجلی
یہ خواب ہے کہ جھونکا ہے کہ پل ہے
یہ دھند ہے بادل ہے کہ سایہ ہے کہ تم ہو انجلی
تیری صُورت بھی جو انقاق سے ہم
بھول جائیں تو کیا تماشا ہو انجلی
سنتے ہیں مل جاتی ہے دعا سے
ایک روز تمہیں مانگ کے خدا سے انجلی
بات تو ہے عام سے پر اتنی بھی نہیں
سب کو خوشیاں مل جاتی ہیں میرا حصہ کھو جاتا ہے انجلی
وارث ہم وہ شاعر بھی ہیں جب لکھنے لگے تو لوگ
گفتگو کے نئے آداب اُٹھا کر لے آئے انجلی
مرنے کا تیرے غم میں ارادہ بھی نہیں ہے
ہے عشق مگر اتنا زیادہ بھی نہیں ہے انجلی
پتھر کی طرح سرد ہے کیوں ان کو کسی کی
عادل نذیر جو بچھڑنے کا ادارہ بھی نہیں انجلی
رسم الفت ہی اجازت دیتی ورنہ ہم بھی
ایسا تمہیں بھول کی سدا یاد رہیں انجلی
کیوں دل کے قریب آجاتا ہے کوئی
کیوں پیار کا احساس جگا جاتا ہے کوئی انجلی
جب عادت سی ہو جاتی ہے اس کی
کیوں دور بہت دور چلا جاتا ہے کوئی انجلی
اس کا ملنا ہی مقدر نہیں تھا ورنہ
ہم نے کیا کچھ نہیں کھویا اسے پانے کے لیے انجلی
عشق کرنے کے کچھ آداب بھی ہوا کرتے ہیں انجلی
جاگتی انکھوں کے بھی کچھ خواب ہوا کرتے ہیں وارث