کھڑا ہُوں آج بھی پلکیں بچھا کے
چراغِ عشق سینے میں جلا کے
قدم بوسی کی خواہش آج بھی ہے
بلاتے ہیں تمہیں رستے وفا کے
نہ اِن کے ضبط کو اب آزماؤ
مری خُوشبو پلٹ کر آبھی جاؤ
وہی رستے جہاں ہم ہم قدم تھے
جو رستے برتر از خُلد و ِارَم تھے
وہ رستے کاٹتے ہیں آج مجھ کو
جو تیرے سنگ کل محوِکرم تھے
مرے سنگ آؤ راہوں کو سجاؤ
مری خُوشبو پلٹ کر آبھی جاؤ
مِری جاں میری باہیں مُنتظر ہیں
مِری جاں ساری راہیں مُنتظر ہیں
تمہاری دید کی اک آس لے کر
یہ پتھرائی نگاہیں مُنتظر ہیں
خدارا اِن کو اب صورت دکھاؤ
مری خُوشبو پلٹ کر آبھی جاؤ
ہے ایسا وَرْد اور خوشبو کا رشتہ
ہو جیسے دل سے اللہ ہُو کا رشتہ
تُم اِس رشتے کی کچھ تو لاج رکھو
بنا دو پیاس کا اور جُو کا رشتہ
کسی صُورت یہ پیاس آکر بجھاؤ
مری خُوشبو پلٹ کر آبھی جاؤ