مری طرح ترا رشتہ بھی ہے زمیں کے ساتھ
جو ہو سکے تو مجھے مِل اِسی یقین کے ساتھ
مرے حبیب کا احوال تم نے پوچھا ہے
وہ کل ملا تھا نئی ایک نازنین کے ساتھ
وہ جس کو گرم سلاخوں سے تو نے داغا ہے
کئے تھے سجدے تجھے کل اسی جبین کے ساتھ
ہر ایک بات پہ شک جس کی ایک عادت ہے
نبھے گی کیسے مری ایسے نکتہ چین کے ساتھ
تمام عمر سکوں دِل کو مل نہ پاۓ گا
دغا نہ کرنا کبھی اپنے ہمنشین کے ساتھ
انہی کو لگتی ہے ناگن مری یہ زلفِ سیاہ
تھا جن کو پیار اسی زلفِ عنبرین کے ساتھ
تمام عمر اٹھانے پڑیں گے ناز و ادا
کبھی بھی دل نہ لگانا کسی حسین کے ساتھ
سجا کے اس کو جو رکھتا ہے پیار سے عذراؔ
ہے انس گھر کو بھی شاید اسی مکیں کے ساتھ