مرے خلوص پہ وہ اعتبار کیوں کرتا
روش جہاں سے الگ اختیار کیوں کرتا
نہ کوئی آس دلائی کبھی اسے میں نے
پھر عمر بھر وہ مرا انتظار کیوں کرتا
اگرچہ میں کبھی شامل نہ دوستوں میں ہوئی
وہ دشمنوں میں بھی مجھ کو شمار کیوں کرتا
مجھے عزیز تھا اپنا وقار ہر صورت
وہ زندگی کو مری بے وقار کیوں کرتا
میں اس کے واسطےگلشن کا استعارہ تھی
مرے بغیر وہ جشنِ بہار کیوں کرتا
وہ جس کو قدر کبھی ہو سکی نہ جذبوں کی
یہ جان و دل کوئی اس پہ نثار کیوں کرتا
اسے تھا پیار فقط اپنی ذات سے عذرا
سوال یہ ہے کہ وہ مجھ سے پیار کیوں کرتا