آنسوؤں کے جو مری آنکھ سے دھارے نکلے
زخم سینے میں تھے جتنے وہ ہمارے نکلے
تم لب بام کھڑے تھے تو یہ محسوس ہوا
تری محفل سے سبھی کرب کے مارے نکلے۔
باندھ رکھا ہمیں دریا کی کئی موجوں نے
اتنے کم ظرف بھی کیوں تیرے کنارے نکلے
چاند جب صحن تخیل میں کبھی اترا ہے
میری آنکھوں سے محبت کے ستارے نکلے
ہم نے اس دل کے سوا چین بھی کھو یا اپنا
کتنے احسان میرے دل پہ تمہارے نکلے
صرف میں ہی نہیں حیرت میں ہے آئینہ بھی
مرے اندر سے سبھی عکس تمہارے نکلے
مرے ہاتھوں میں محبت کی لکیریں ہی، نہیں
ایسی حالت میں سبھی دوش ہمارے نکلے