ملی نہ فکرِ روزی سے ہمیں ذرا مہلت
سو عشق وشق کی ہم پالتے بھی کیا علّت
ضرورتوں نے ہمیں زندگی کی باندھا ہے
ہمارے واسطے بس حسرتوں کا کاندھا ہے
مُقدر کا ہے لکھا کریں فقط محنت
پھر بھی پائیں نہ ہرگز اِک ذرا راحت
صبح سے شام تک روٹی ہمیں نچاتی رہے
تمام عمر فقط روٹی یاد آتی رہے
اسی کی چاہ میں ہر روز نئی ذلّت کو سہیں
پھر بھی اشیائے لازم کی قلت کو سہیں
اپنی اولاد کو تعلیم سے محروم تکیں
سیاہ مُستقبل کے اندیشوں سے ہذیان بکیں
اپنے بیمار کو دوا بناء مرتا دیکھیں
اپنے خوابوں کو ہر لحظہ بکھرتا دیکھیں
بہرِ مزدور ہے یکساں ہر اِک روز اور شب
رقصِ بِسمل کے دیکھے سے ہے فُرصت ہی کب؟
تم کو اُلفت و محبت کی ادا خُوب رہی
میری ہستی میرے اپنوں سے ہی محجُوب رہی
مُجھ کو تہوارِ محبت نہیں بھاتا ہرگز
میری ہستی میں یہ خوشیاں نہیں لاتا ہرگز
میں جو چاہوں بھی تو یہ دِن مناسکتا نہیں
روٹی کے بدلے گھر پھول لیجا سکتا نہیں
گفٹ محبوب سے کیا تم کو ملے گا صاحب؟
فکر مجھ کو ہے میرے گھر کیا پکے گا صاحب؟