مسافتوں میں ہوں مدت سے جس کی خاطر میں
اُسے تو آج بھی لگتا ہوں صرف شاعر میں
مجھے وہ قتل کریں گے بڑے تحمل سے
وہ جانتے ہیں مجھے کہ بڑا ہوں صابر میں
مرے لیۓ یہی اچھا ہے شہر چھوڑ چلوں
بڑا ہے شہر منافق کہاں ہوں شاطر میں
تمہارے واسطے شاید میں کچھ بھی کر گزروں
غریبِ شہر ہوں بےشکل ہوں بظاہر میں
حریفِ جان شکاری نے مار ڈالا مجھے
یوں جاں بچا نہ سکا پَر کٹا تھا طائر میں
قدم قدم پہ ترا جگنو پوچھتے کیوں ہیں
کہ جب بھی رات کو نکلا ہوں گھر سے باہر میں
وہی ہے آج بھی پہچان سادگی میری
بدل گیا ہے زمانہ وہی ہوں باقرؔ میں