مسافر پہ منزل سزا ہو گئی ہے
ستاروں سے یہ شب خفا ہو گئی ہے
بچھی اُن کی راہوں پہ پھولوں کی برکھا
بتا اُن کے آنے سے کیا ہو گئی ہے
سنے کون تیرے وفا کے یہ قصّے
کہ بات اس پہ تو بے بہا ہو گئی ہے
نہ سائل دعا کا نہ خواہش ہے دل میں
جو تھی شوخ سیرت وہ کیا ہو گئی ہے
ہمیشہ ہی سوچا بھلا میں نے اپنا
عجب پیدا خود میں انا ہو گئی ہے
تُو عامر حیا کے بھی قابل نہیں ہے
تری اس قدر ہر خطا ہو گئی ہے