ہر شے میں پیوست ہوں میں مست ہوں میں
خود میں بندوبست ہوں میں مست ہوں میں
ہفت افلاک ہیں جس کے زیرِ زانو
دیوانے کی جست ہوں میں، مست ہوں میں
جیتنے والوں کے چہرے پر حیرت
محوِ رقصِ شکست ہوں میں مست ہوں میں
یہ جو شرارت تھی ، ہے معصومانہ
کس نے کہا بد مست ہوں میں، مست ہوں میں
کرتا ہے سب کچھ وہ میرے وسیلے
اس کی چشم و دست ہوں میں، مست ہوں میں
خرم شاہ کو چھوڑ آیا ہوں دفتر
اب بس شاہ الست ہوں میں مست ہوں میں