مستقبل

Poet: Habib Jalib By: TARIQ BALOCH, HUB CHOWKI

 تیرے لیے میں کیا کیا صدمے سہتا ہوں
سنگینوں کے راج میں بھی سچ کہتا ہوں
میری راہ میں مصلحتوں کے پُھول بھی ہیں
تیری خاطر کانٹے چنتا رہتا ہوں
تُو آئے گا اسی آس پر جُھوم رہا ہے دل
دیکھ اے مستقبل
اِک اِک کرکے سارے ساتھی چھوڑ گئے
مجھ سے میرے رہبر بھی منہ موڑ گئے
سوچتا ہوں بیکار گِلہ ہے غیروں کا
اپنے ہی جب پیار کا ناتا توڑ گئے
تیرے بھی دشمن ہیں میرے خوابوں کے قاتل
دیکھ اے مستقبل
جہل کے آگے سر نہ جھکایا میں نے کبھی
سِفلوں کو اپنا نہ بنایا میں نے کبھی
دولت اور عہدوں کے بل پر جو اینٹھیں
ان لوگوں کو منہ نہ لگایا میں نے کبھی
میں نے چور کہا چوروں کو کھل کے سر محفل
دیکھ اے مستقبل

Rate it:
Views: 486
19 Sep, 2011