جو کبھی تھا خوشگوار وہ آزار بن گیا
ہموار راستہ بڑا دشوار بن گیا
مجھے عشق کیا ہوا کہ عدو بن گیا جہاں
نظروں میں میں سبھی کی گنہگار بن گیا
شہر سخن میں پا کے رفیقوں کی چاہتیں
لگتا ہے جیسے یہ مرا گھر بار بن گیا
فن کی باریکیاں وہ کبھی نہ سمجھ سکا
محبوب کے فراق میں فنکار بن گیا
تم نے چھوا جو کاغذی پھولوں کو پیار سے
ہر ایک پھول کھل گیا ، مہکار بن گیا
عزم وفا سے آج وہ پتھر پگھل گیا
انکار اس کا پیار سے اقرار بن گیا
میں نے تمھارے حسن پہ لکھا ہے جو بھی گیت
خود حسن و نغمگی کا وہ شہکار بن گیا
دشمن تھا دشمنی ہی نبھاتا رہا سدا
حسن سلوک سے وہ مرا یار بن گیا
اے شوخ! تیرے لب پہ تبسم ہے یا کہ پھول
مسکائی ہو تو گھر مرا گلزار بن گیا
باتوں میں کٹ گیا مری تنہائی کا سفر
زاہد جو ہمسفر تھا مرا پیار بن گیا