برا وقت لاتی ہے یہ مفلسی
بہت آزماتی ہے یہ مفلسی
بڑے نا موافق ہیں یہ پیچ وخم
نئے موڑ لاتی ہے یہ مفلسی
مصائب نے ہر سمت گھیرا ہوا
کھلے آسماں میں بسیرا ہوا
کسی غیر سے ہم گلہ کیا کریں
ہے اپنوں نے منہ آج پھیرا ہوا
نظر سے گراتی ہے یہ مفلسی
بہت آزماتی ہے یہ مفلسی
بغل گیر رہتے تھے جو ہر گھڑی
وہی یار نظریں چرانے لگے
کبھی مل گئے جو مجھے بھیڑ میں
بڑی ہمدردی دکھانے لگے
کئی رنگ دکھاتی ہے یہ مفلسی
بہت آزماتی ہے یہ مفلسی
فاقہ کشی نے کیا ہے کہن
جوانی گئی اور گیا بانکپن
جینے کا احساس باقی نہیں
توڑ ڈالا غریبی نے میرا بھرم
ہردئیے کو بجھاتی ہے یہ مفلسی
بہت آزماتی ہے یہ مفلسی
صدیقی غموں سے ہوا ہے نڈھال
کروں آج کس سے میں اپنا سوال
میں بھی وہی اور جہاںبھی وہی
بدل دی زمانے نے کیوں اپنی چال
دربدر کیوں رلاتی ہے یہ مفلسی
بہت آزماتی ہے یہ مفلسی